الحمد للہ.
سیدنا آدم علیہ السلام نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں جانتے تھے، جیسے کہ آئندہ سطور میں اس کی دلیل ہم پیش کریں گے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام اپنی اولاد میں آنے والے تمام انبیائے کرام کو جانتے تھے ، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ترجمہ: اور آدم کو سب نام سکھائے۔[البقرۃ: 31] کی تفسیر میں بہت سے سلف صالحین کے موقف سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے۔
چنانچہ شیخ المفسرین ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کی تفسیر میں سب سے بہترین موقف یہ ہے کہ: آدم علیہ السلام کو جن چیزوں کے نام سکھائے تھے وہ بنی آدم کے ایک ایک فرد کا نام اور فرشتوں کے نام اللہ نے سکھائے تھے۔" ختم شد
اور بنی آدم میں سے انبیائے کرام کے بارے میں معرفت حاصل ہونا سب سے اولی ہے۔ واللہ اعلم
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ حدیث میں یہ چیز موجود ہے کہ آدم علیہ السلام کو اپنے بیٹے داود علیہ السلام کے بارے میں علم تھا۔
جیسے کہ مسند احمد: (2708) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سب سے پہلے جو اپنی بات سے انکاری ہوئے آدم علیہ السلام تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات تین بار فرمائی۔ جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا تو آدم کی پیٹھ کو چھوا اور وہاں سے ان کی اولاد پیدا فرمائی، اور سب کو آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ اپنی اولاد میں آدم علیہ السلام کو ایک خوبصورت آدمی نظر آیا تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے رب، یہ کون ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: تمہارا بیٹا داود ہے۔ آدم نے کہا: اس کی عمر کتنی ہے؟ کہا 60 سال۔ تو آدم نے کہا: اے رب اس کی عمر میں اضافہ فرما دے۔ تو اللہ تعالی نے فرمایا: یہ نہیں ہو سکتا، البتہ یوں ہو سکتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں سے انہیں دے دو، تو آدم نے اپنی عمر میں سے انہیں چالیس سال دے دئیے، اور اللہ تعالی نے اس کی تحریر بھی فرما لی، اور اس پر فرشتوں کو بھی گواہ بنا لیا۔ پھر جب آدم علیہ السلام کی روح قبض کرنے کا وقت آیا تو آدم علیہ السلام نے کہا: میری عمر میں سے ابھی چالیس سال باقی ہیں۔ تو انہیں بتلایا گیا: آپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داود کو دے دئیے تھے۔ تو آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کر دیا ۔ تو اللہ تعالی نے لکھی ہوئی تحریر نکلوائی، اور آدم کے خلاف حجت پوری کر دی، تو اللہ تعالی نے داود علیہ السلام کی عمر 100 سال پوری فرما دی اور آدم علیہ السلام کے لیے 1000 سال عمر پوری رکھی۔) الشیخ احمد شاکر مسند احمد کی تحقیق میں کہتے ہیں کہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ جبکہ مسند احمد کے محققین کہتے ہیں: کہ اس کی سند حسن لغیرہ ہے۔ ما سوائے آخری جملے: " تو اللہ تعالی نے داود علیہ السلام کی عمر 100 سال پوری فرما دی اور آدم علیہ السلام کے لیے 1000 سال عمر پوری رکھی۔" کے ، یہ جملہ ان کے ہاں ضعیف ہے۔
رہی یہ بات کہ دیگر انبیائے کرام ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں جانتے تھے یا نہیں تو اس حوالے سے اللہ تعالی کا فرمان موجود ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ
ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔ [آل عمران: 81]
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:
"سیدنا علی بن ابو طالب، اور آپ کے چچا زاد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ اس کی زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی امداد کرے۔" پھر آگے چل کر مزید کہا کہ: "ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم قیامت قائم ہونے تک خاتم الانبیاء ہیں اور امام اعظم ہیں جس زمانے میں بھی آپ کی نبوت ہوتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم واجب الاطاعت تھے اور اس وقت کے تمام انبیاء علیہم السلام کی پیروی پر آپ کی فرمانبرداری مقدم رہتی ، یہی وجہ تھی کہ معراج والی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی موجودگی میں امام آپ ہی بنائے گئے ، اسی طرح میدان محشر میں بھی آپ ہی اس بات کی سفارش کریں گے کہ اللہ تعالی لوگوں کے درمیان فیصلے کا آغاز فرمائے۔ یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں تمام انبیاء علیہم السلام اور جتنے بھی رسول ہیں اس دن شفاعت کرنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے بالآخر شفاعت کے لیے لوگ خصوصیت کے ساتھ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقام محمود پر شفاعت کریں گے ۔" ختم شد
رہا یہ معاملہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تمام انبیائے کرام کے بارے میں جانتے تھے؟ تو اس حوالے سے فرمانِ باری تعالی ہے:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ
ترجمہ: یقیناً ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے ان میں سے کچھ کے قصے ہم نے آپ کو بیان کیے، اور کچھ کے قصے ہم نے آپ کو بیان نہیں کیے۔[غافر: 78]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
" آپ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ کے سامنے بیان کر دیے ہیں کہ انہوں نے اپنے قوم کے ساتھ کیسا رویہ رکھا، اور قوم نے انہیں کیسے جھٹلایا، پھر آخر کار کامیابی رسولوں کو ملی اور وہی اللہ تعالی کی نصرت سے ہمکنار ہوئے، اور وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ بعض کے واقعات ہم نے بیان نہیں کئے اور وہ مذکور انبیائے کرام کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں ۔" ختم شد
لیکن یہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ : اللہ تعالی نے تمام ابنیائے کرام کو معراج والی رات جمع فرمایا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب نبیوں کی امامت کروائی جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نے اپنے آپ کو انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کی جماعت میں پایا، تو موسی علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اسی طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اور ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ تو جب نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان کی امامت کروائی۔)
اسی طرح مسند احمد : (2324)میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: (جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے کھڑے ہو کر نماز اد ا کرنا شروع کر دی، پھر جب آپ نے جھانکا تو سب انبیائے کرام آپ کے ہمراہ نماز ادا کر رہے تھے۔) اس کی سند کو امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر: ( 5 / 26 ) میں صحیح قرار دیا ہے، اور اسی طرح احمد شاکر نے بھی مسند احمد پر اپنی تعلیق میں اسے صحیح کہا ہے۔ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری: ( 7 / 209 ) وغیرہ میں قاضی عیاض رحمہ اللہ کا "الشفا" سے قول نقل کیا ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انبیائے کرام کی بیت المقدس میں جماعت کروائی۔" تو ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب انبیائے کرام کو دیکھا ہو اور سب کو پہچان بھی لیا ہو، اگرچہ اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ انبیاء کے واقعات میں سے کچھ بھی بیان نہ فرمایا ہو۔
واللہ اعلم