الحمد للہ.
اول:
کتے کو پالنا شرعاً جائز نہیں ہے، سوائے اس صورت میں کہ جب اسے حفاظت یا شکار کے لیے رکھا جائے۔ جو شخص اس کے علاوہ کسی اور غرض سے کتا رکھے، وہ گناہگار ہے، اور ہر دن اس کے نیک اعمال میں سے ایک یا دو قیراط کم کر دیے جاتے ہیں۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سوال نمبر (69777) اور (69840)۔
دوم:
علمائے کرام کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کتے کی نجاست کو پاک کرنے کے لیے صرف مٹی کا استعمال لازم ہے یا اس کے بدلے کوئی اور صفائی کا ذریعہ، مثلاً صابن وغیرہ، بھی کافی ہو سکتا ہے؟ ہم نے اس اختلاف کا تذکرہ سوال نمبر (46314) کے جواب میں کیا ہے۔
چنانچہ "دائمی فتاوی کمیٹی" کے علمائے کرام نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ مٹی کے قائم مقام صفائی کے دیگر ذرائع، جیسے صابن وغیرہ کا استعمال بھی جائز ہے۔
ان سے سوال کیا گیا:
"اگر کتے کا لعاب انسان کے جسم یا کپڑوں پر لگ جائے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور وہ کپڑے جو ایسے کپڑوں کے ساتھ ایک ہی پانی اور ایک ہی واشنگ مشین میں دھوئے جائیں، ان کا کیا حکم ہو گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"کتے کا لعاب نجس ہے، لہٰذا جس چیز کو وہ لگ جائے، چاہے وہ برتن ہو یا کپڑا، اسے دھونا واجب ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کے برتن کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اس میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے، جن میں سے پہلی مرتبہ مٹی سے ہو‘‘ (متفق علیہ)۔
چنانچہ اگر کپڑے طاہر (خود پاک اور دوسروں کو پاک کرنے والے) پانی میں اس طرح دھو دیے جائیں کہ نجاست کا اثر زائل ہو جائے، تو وہ سب پاک ہو جائیں گے، چاہے وہ کتے کی نجاست سے آلودہ ہوں یا کسی اور نجاست سے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ کتے کی نجاست کا ازالہ سات مرتبہ دھونے سے ہو، اور ان میں سے پہلی مرتبہ مٹی یا مٹی کے قائم مقام کسی چیز جیسے صابن یا اشنان [صابن کا قائم مقام قدرتی پاؤڈر] سے ہو۔"
شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ عبدالعزیز آل الشیخ، شیخ صالح الفوزان، شیخ بکر ابو زید
ماخذ: "فتاوی دائمی فتوی کمیٹی" (دوسرا ایڈیشن: جلد 4، صفحہ 196)
واللہ اعلم