اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

انبیائے کرام بعثت سے پہلے بھی کفر و شرک سے محفوظ ہوتے ہیں، اس سے متعلق شبہات کا رد

22-07-2025

سوال 317529

ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے پہلے بھی شرک سے محفوظ  اور معصوم ہوتے ہیں، لیکن مجھے اس دعویٰ پر کوئی واضح دلیل نہیں ملی، بلکہ اس کے برعکس ایسی آیات ملی ہیں جو اس دعوے کی مخالفت کرتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ترجمہ: جب رات نے اسے ڈھانپ لیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا: میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[الأنعام: 76]۔ اس بارے میں  ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ستارہ دیکھا  اور اس کے چمکتے رہنے تک اس کی عبادت کی، لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا: میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح جب انہوں نے چمکتا ہوا چاند دیکھا تو کہا: ’’یہ میرا رب ہے‘‘، اور جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا: لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ترجمہ: اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی تو میں یقیناً گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔[الأنعام: 77]۔ یہ آیت واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سچے رب کی تلاش میں تھے اور آخر کار یہ بات ان پر ظاہر ہوئی کہ ستارے رب بننے کے لائق نہیں۔ اگر وہ اپنی قوم سے مناظرہ کر رہے ہوتے، تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: ’’پھر جب رات نے اسے ڈھانپا اور اس نے اپنی قوم کو ستارے کی عبادت کرتے دیکھا، تو کہا: اے قوم! یہ ہے تمہارا رب‘‘ – یا اس طرح کا کچھ اور بیان ہوتا۔

اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا... فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ترجمہ: وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا... پھر جب اس نے ان دونوں کو ایک صحیح بچہ عطا کیا، تو ان دونوں نے اس میں دوسروں کو شریک ٹھہرا دیا) [الأعراف: 189-190]۔ آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ابلیس حوّا کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ اپنے بیٹے کا نام "عبد الحارث" رکھو، تو انہوں نے ایسا کیا۔

جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو بعثت سے قبل آخرت، وحی، اور عقیدۂ ولاء و براء سے واقفیت نہ تھی، حالانکہ یہ سب دین کے بنیادی عقائد میں شامل ہیں، جن کے بغیر کوئی مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان عقائد کو کیسے جان سکتے تھے  حالانکہ آپ کی مشرکانہ  ماحول میں پرورش ہوئی تھی؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان امور سے واقف ہوتے تو اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا کہ : مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ترجمہ: آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔ [الشورى: 52]  اور کیوں فرماتا: وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى [الضحى: 7]  یعنی : اس نے آپ کو گمراہ پایا تو ہدایت دی۔ یہاں  اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’اور اس نے آپ کو ہدایت یافتہ پایا تو مزید ہدایت دی۔‘‘ تو ان تمام دلائل کے بعد کیا یہ کہنا کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے قبل شرک سے محفوظ ہوتے ہیں، قرآن کی مخالفت اور اس کی تکذیب نہیں کہلائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام بعثت سے پہلے کفر و شرک سے معصوم ہوتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اہل سنت کے بہت سے علماء کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے پہلے کفر سے محفوظ ہوتے ہیں، جیسا کہ ابن الأنباری، الزجاج، ابن عطیہ، ابن الجوزی، اور بغوی رحمہم اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔‘‘ بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اصولی علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام وحی سے پہلے مؤمن ہوتے تھے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: ’’ تفسیر آیات أشكلت ‘‘ (1/181)

امام احمد رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اس مسئلے پر حدیثِ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں اس وقت سے اللہ کا بندہ اور خاتم النبیین ہوں، جب آدم علیہ السلام ابھی مٹی میں گندھے ہوئے تھے، اور میں تمہیں اس کی ابتدا بتاتا ہوں: میرے والد ابراہیم  [علیہ السلام] نے میرے لیے دعا کی، عیسیٰ  [علیہ السلام] نے میری بشارت دی ، اور میری والدہ میرا خواب دیکھا تھا۔‘‘
مسند احمد، حدیث: (17150)   شعیب الارناؤوط نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’امام احمد رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ابتدا سے ہی توحید پر تھے، نیز امام صاحب نے ان لوگوں کا رد کیا جو اس سے متصادم موقف رکھتے ہیں۔ بلکہ اس حدیث سے یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش ہی سے نبی تھے، کیونکہ ان کی نبوت کا فیصلہ اس وقت ہو چکا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جاری تھی، یعنی وہ اپنی مٹی میں تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سے نبی تھے، اگرچہ دنیا میں ان کا ظہور بعد میں ہوا۔ اور یہ اس طرح ہے جیسے کسی کو مستقبل میں کسی منصب پر مقرر کیا جائے تو اس کا حکم اسی وقت نافذ ہو جاتا ہے، اگرچہ عملی اقدام کچھ وقت بعد ہو۔‘‘

حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’میں نے ابو عبد اللہ امام احمد سے پوچھا: جو یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر تھے، تو آپ کا کیا قول ہے؟

انہوں نے فرمایا: یہ غلط بات ہے، ایسے شخص کی بات کو سننے سے بچنا چاہیے اور اس کی مجلس سے کنارہ کشی کرنی چاہیے۔

میں نے عرض کیا: ہمارے محلے کا ناقد ابو العباس یہ بات کہتا ہے۔ تو فرمایا: اللہ اسے تباہ کرے! اگر وہ کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے دین یعنی بت پرستی پر تھے، تو پھر اس نے کیا باقی چھوڑا؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ترجمہ: اور میں اس رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہے۔[الصف: 6]

میں نے عرض کیا: وہ یہ بھی کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اسی دین پر تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا؟

فرمایا: خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں میں کچھ نہیں کہتا، لیکن اتنا جان لو کہ وہ عورتوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والی تھیں۔‘‘

پھر امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ لوگ کیسی باتیں گھڑتے ہیں؟ یہ علمِ کلام کے پیروکار ہیں، اور جو علمِ کلام سے محبت کرے وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔ سبحان اللہ! یہ کیسی بات ہے!‘‘  راوی کہتے ہیں: انہوں نے کچھ اور استدلال بھی پیش کیا جسے میں یاد نہ رکھ سکا۔

پھر فرمایا: ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے آپ کو جنم دیا تو انہوں نے ایسا نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ کیا یہ ولادت کے وقت کا واقعہ نہیں؟ اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے بھی بتوں سے پاک و صاف نہ تھے؟ کیا آپ بتوں پر ذبح کیا  گیا گوشت نہیں کھاتے تھے؟!۔‘‘

پھر فرمایا: ’’علمِ کلام سے بچو، کیونکہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔‘‘ یہ واقعہ امام ابو بکر عبد العزیز بن جعفر نے اپنی کتاب ’’السنہ‘‘ میں بیان کیا ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ انبیاء سابقین کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی بشارت اور آپ کی ولادت کے وقت ظاہر ہونے والی نشانیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آنے سے قبل ہی نبی تھے۔ اور یہی مفہوم حدیثِ عرباض بن ساریہ میں ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ’’میری نبوت اس وقت سے ہے جب آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں تھے۔‘‘ اور "منجدل" کا مطلب ہے: زمین پر پڑا ہوا، یعنی روح پھونکے جانے سے پہلے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دنیا میں ظہور سے قبل اپنی نبوت اور عظمت کے ذکر کے تین دلائل بیان فرمائے، اور یہی آپ کے اس فرمان کا مطلب ہے:

’’وسأنبئكم بتأويل ذلك‘‘  ترجمہ: میں تمہیں اس کی تفصیل بتلاتا ہوں :-

پہلی دلیل: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے والد گرامی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے، جب حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام بیت اللہ کی تعمیر کر رہے تھے:رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ * رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ * رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ترجمہ: ہمارے پروردگار! ہم سے قبول فرما، یقیناً تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ہمارے پروردگار! تو ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا لے، اور ہماری اولاد میں سے بھی تیری فرمانبردار امت بنا لے، اور ہمیں عبادت کرے طریقے سکھا، اور ہماری توبہ قبول فرما، یقیناً تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ہمارے پروردگار! انہی میں سے  ان میں رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے، اور ان کا تزکیہ کرے؛ یقیناً تو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔ (البقرہ: 127-129)

دوسری دلیل: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:  وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ترجمہ: اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، میں اپنے سے پہلے تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں، اور اپنے بعد آنے والے رسول  جن کا نام احمد ہے ان کی خوش خبری دینے والا ہوں۔ [الصف: 6]

پھر سیدنا مسیح علیہ السلام اپنی قوم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی ترغیب بھی دیتے تھے، اور فرماتے تھے: ’’وہ تلوار کے ساتھ مبعوث ہوں گے، لہٰذا یہ بات تمہیں ان کی پیروی سے نہ روکے۔‘‘
یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’میں چلا جاؤں گا اور میرے بعد وہ آئے گا، وہ تم سے مطالبہ کر کے محبت حاصل نہیں کرے گا، بلکہ تلوار نکالے گا، اور تم چار و ناچار اس کے تابع ہو جاؤ گے۔‘‘

تیسری دلیل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا وہ خواب جو انہوں نے آپ کی ولادت سے پہلے دیکھا، جس میں انہوں نے ایک نور دیکھا جو ان کے جسم سے نکل کر شام کے محلات کو روشن کر رہا تھا۔ کہا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی مائیں ایسا ’’ رؤیا ‘‘دیکھتی ہیں۔

اگر اس رؤیا سے مراد خواب ہے تو آمنہ بنت وہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل کے آغاز میں خواب میں دیکھا کہ انہیں بشارت دی گئی کہ ان کے بطن سے ایسا بچہ پیدا ہو گا جس سے شام کے محلات روشن ہوں گے۔

اور طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ ابو مریم کندی سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’آپ کی نبوت کی ابتدا کیا تھی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے مجھ سے اسی طرح عہد لیا جس طرح اللہ تعالی نے دیگر انبیائے کرام  سے لیا تھا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَمِنْكَ وَمِن نُّوحٍ ترجمہ: اور اس نے آپ سے اور نوح سے عہد لیا۔ [الاحزاب: 7] پھر فرمایا: ’’اور مسیح ابن مریم کی بشارت، اور میری والدہ نے خواب میں دیکھا کہ ان کے سامنے سے ایک چراغ نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اور اس کے پیچھے اور بھی باتیں ہیں…‘‘ (دو یا تین بار فرمایا)۔

اگر اس رؤیا سے مراد آنکھوں سے مشاہدہ ہو، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ ترجمہ: اور ہم نے آپ کو جو رؤیا دکھلایا وہ لوگوں کے لیے آزمائش ہے۔ [الإسراء: 60]

یعنی وہ رؤیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات دکھایا گیا تھا، تو ایک رؤیا آپ کی والدہ نے بھی آپ کی ولادت کے وقت دیکھا تھا۔ اس کی تفصیل ابن اسحاق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: آمنہ بنت وہب روایت کرتی تھیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امید سے ہوئیں ، تو میرے پاس آنے والا آیا اور کہا: ’’تم اس امت کے سردار کے ساتھ حاملہ ہو۔ جب وہ پیدا ہو تو کہو: میں اسے ہر حاسد کے شر سے واحد اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ اور اس کی نشانی یہ ہو گی کہ اس کے ساتھ ایسا نور نکلے گا جو شام کی سرزمین پر بصریٰ کے محلات کو روشن کرے گا۔ جب وہ پیدا ہو، تو اس کا نام محمد رکھنا، کیونکہ اس کا نام تورات میں ’’احمد‘‘ ہے، آسمان و زمین والے اس کی تعریف کرتے ہیں، اور انجیل میں بھی ’’احمد‘‘ ہے، آسمان و زمین والے اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اور قرآن میں اس کا نام ’’محمد‘‘ ہے۔‘‘  ختم شد
ماخوذ از: لطائف المعارف، ص 163-172، مختصراً

السفارینی رحمہ اللہ ’’ لوامع الأنوار ‘‘(2/305) میں فرماتے ہیں: ’’تنبیہ: ہمارا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر نہ تھے، بلکہ آپ مسلمان اور مؤمن پیدا ہوئے، جیسا کہ ابنِ عقیل وغیرہ نے کہا۔ ابنِ عقیل (نهاية المبتدئين) میں فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلام کے علاوہ کبھی بھی کسی اور دین پر نہ تھے، نہ ہی اپنی قوم کے دین پر، بلکہ وہ اللہ کے لکھے ہوئے اور ان کی شان کے مطابق مؤمن صالح اور نبی پیدا ہوئے تھے۔‘‘

دوم:

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے:

مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ترجمہ: تو  نہیں جانتا تھا  کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔ [الشورى: 52]

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ تو پہلے کسی آسمانی کتاب کو پڑھ سکتے تھے، نہ کوئی کتاب آپ پر پہلے نازل ہوئی تھی، اور نہ ہی آپ کو بعثت سے قبل شریعتِ اسلامیہ کی تفصیلات کا علم تھا۔

امام ابن عاشور رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’کتاب سے ناواقف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کتاب کو پڑھ کر علم حاصل نہیں کر سکتے تھے نہ ہی پڑھ کر اسے سمجھ سکتے تھے۔ ’ایمان‘ سے عدم واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرعی ایمان کی حقیقت، اللہ کی صفات، اور دین کی بنیادوں کے تفصیلات معلوم نہ تھیں۔  اور کبھی ’ایمان‘ کا اطلاق اسلام کے مترادف کے طور پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ترجمہ: اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے) [البقرہ: 143]  یہاں وہ ایمان مراد ہے جس میں کمی اور اضافہ  ہوتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَاناً ترجمہ: ایمان لانے والوں کا ایمان اور مزید بڑھ جائے۔[المدثر: 31] تو یہاں پر ’’ يَزْدَادَ ‘‘ کا معنی ایمان کی حقیقت سے عدم شناسائی کے تناظر میں یہ ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسلامی شرعی احکامات کا علم نہیں تھا، تو ایمان سے عدم شناسائی  بالکل اسی طرح تھی جیسے کتاب کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شناسائی نہیں تھی، تو مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمان کی حقیقت کا ادراک نہیں تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن کی حقیقت کا ادراک نہیں تھا۔ اسی لیے جب اللہ نے فرمایا: مَا كُنتَ تَدْرِي ترجمہ: تو نہیں جانتا تھا، یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ : ’’ما كنت مؤمناً‘‘تو مؤمن نہ تھا، کیونکہ ان ایمان اور ادراک دونوں باتوں میں فرق ہے۔
ان دونوں احتمالات میں سے کوئی بھی یہ تقاضا نہیں کرتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے وجود اور اللہ تعالی کی الوہیت و وحدانیت پر ایمان نہ رکھتے تھے، کیونکہ تمام انبیاء و رسل بعثت سے پہلے بھی شرک سے محفوظ  ہوتے ہیں، اور اللہ کی وحدانیت کے قائل اور بت پرستی کے منکر ہوتے ہیں۔ ہاں، بعثت سے قبل وہ ایمان کی تفصیلات، شرائع اور احکام سے واقف نہیں ہوتے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم زمانۂ جاہلیت میں بھی جانتے تھے کہ بتوں کی عبادت باطل ہے، کیونکہ آپ کی قوم اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتی تھی، اور آپ کے نزدیک ان کا الٰہ ہونا باطل تھا، اور یہی آپ کو خالص توحید کی طرف لے آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنی سیرت میں اس کی خبر دی، جیسا کہ ابو نعیم نے ’’دلائل النبوة‘‘ میں اور قاضی عیاض نے ’’الشفاء‘‘ میں ذکر کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب میں شعور میں آیا (یعنی بالغ ہوا) تو بت میرے لیے ناپسندیدہ بنا دیے گئے، اور شاعری بھی ناپسند ہو گئی۔ میں نے جاہلیت کے کسی عمل کو اختیار کرنے کا ارادہ صرف دو بار کیا، لیکن اللہ نے دونوں مرتبہ مجھے اس سے بچا لیا، اور پھر میں نے کبھی ان کی طرف رجوع نہ کیا۔‘‘  یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ قریش آپ سے توحید کے مسئلے میں شدید جھگڑتے تھے، مگر انہوں نے کبھی یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ پہلے ان کی طرح بتوں کی عبادت کرتے تھے۔  ختم شد

’’ التحریر والتنویر ‘‘( 25/152)

سوم:

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے: وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى ترجمہ: اور اس نے آپ کو بے راہ پایا، تو ہدایت دی۔ [الضحى: 7] تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نبوت سے دور تھے، اور شریعت کے احکام و تفصیلات سے واقف نہ تھے۔ یا یہ کہ آپ وحی سے بے خبر تھے۔

امام بغوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (8/456) میں لکھتے ہیں: ’’حسن، ضحاک، اور ابن کیسان رحمہم اللہ نے کہا: وَوَجَدَكَ ضَالًّا یعنی آپ نبوت کی نشانیوں اور شریعت کے احکام سے غافل تھے، تو اللہ نے آپ کو ان کی طرف ہدایت دی۔‘‘

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ترجمہ: اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبر لوگوں میں سے تھے۔[یوسف: 3]  اور فرمایا: مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ترجمہ: آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔[الشورى: 52]  اور ایک قول یہ بھی ہے کہ: ’’ضالًّا‘‘ سے مراد ہے کہ آپ مکہ کی وادیوں میں راستہ بھول گئے تھے، تو اللہ نے آپ کو آپ کے دادا عبد المطلب کے پاس پہنچا دیا۔ ابوالضحیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ کی وادیوں میں گم ہو گئے تھے، تو ابو جہل نے آپ کو دیکھا جب وہ اپنی بکریاں چرا کر واپس آ رہا تھا، تو وہ آپ کو عبد المطلب کے پاس واپس لے آیا۔‘‘ اور یہ بھی کہا گیا کہ: ’’اللہ نے آپ کو ’ضالًّا‘ پایا یعنی آپ اپنی حقیقت سے ناواقف تھے، آپ نہیں جانتے تھے کہ آپ کون ہیں، تو اللہ نے آپ کو آپ کی حقیقت اور مقام سے روشناس کرایا۔‘‘ ختم شد

علامہ قاسمی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (9/492) میں فرماتے ہیں: ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى﴾ ترجمہ: ’’اللہ نے آپ کو وحی سے غافل پایا، تو آپ کو اس ہدایت اور فرقان کی طرف رہنمائی دی، اور آپ کو اس کے لیے امام بنا دیا، جیسا کہ اس آیت میں ہے: مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ترجمہ: آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔[الشورى: 52]‘‘ علامہ شِہاب کہتے ہیں: ’’یہاں ’ضلال‘  کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’فلاں راستے سے بھٹک گیا‘، یعنی وہ ایسی راہ اختیار کر بیٹھا جو اسے مقصد تک نہ لے جا سکتی ہو، اس لیے کہ اس کے پاس صحیح راستے تک پہنچانے کے لیے مفید علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہ تھا۔‘‘

چہارم:

فرمانِ باری تعالی : فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ترجمہ: پھر جب اللہ نے ان دونوں کو صالح  اولاد عطا کی تو دونوں نے اللہ کی اس عنایت پر شریک بنا دئیے۔[الأعراف: 190] تو اس سے مراد حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام نہیں ہیں، بلکہ ان کی اولاد میں سے مشرک لوگ مراد ہیں۔

علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے ’’أضواء البيان‘‘ (2/46) میں اس آیت کی تفسیر کے لیے  علمائے کرام کے ہاں دو مشہور اقوال  ہیں، اور قرآن کریم میں ان میں سے ایک موقف کی تائید موجود ہے ، وہ دو اقوال یہ ہیں:

’’ پہلا قول: یہ ہے کہ حضرت حواء کے ہاں جو بچے پیدا ہوتے تھے، وہ زندہ نہ رہتے۔ جب وہ حاملہ ہوئیں، تو شیطان ان کے پاس آیا اور کہا: اگر تم اس بچے کا نام ’’عبد الحارث‘‘ رکھو گی، تو وہ زندہ رہے گا۔ ’’الحارث‘‘ شیطان کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چنانچہ حضرت حواء نے اس کا نام ’’عبد الحارث‘‘ رکھ دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا ترجمہ: پھر جب اللہ نے ان دونوں کو صحیح سالم بچہ عطا کیا۔ یعنی ایک زندہ انسان، جو لڑکا تھا۔  تو جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ ترجمہ: دونوں نے اللہ کے ساتھ اس عنایت پر شریک بنا دیے۔   یعنی اس بچے کا نام شیطان کی طرف منسوب کر کے عبد الحارث رکھ دیا۔ اس مفہوم جیسی ایک مرفوع حدیث بھی مروی ہے، لیکن ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور معلول ہے۔

دوسرا قول: یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم و حواء کو نیک اولاد دی، تو ان کی اولاد میں سے بہت سے لوگ بعد میں کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ فعل ان کی طرف اس لیے منسوب کیا کہ وہ ان کی نسل کا آغاز ہیں، جیسے قرآن میں فرمایا: وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ترجمہ: ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی۔ [الأعراف: 11] یعنی یہ سب آدم علیہ السلام کی تخلیق و تصویر کے توسط سے ہے، اسی لیے اس کے بعد فرمایا: ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ ترجمہ: پھر ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو۔ یہ دوسرا قول راجح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ * أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ترجمہ: اللہ ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند و برتر ہے۔ کیا وہ ان کو شریک بناتے ہیں جو کچھ پیدا نہیں کر سکتے اور خود پیدا کیے گئے ہیں؟  [الأعراف: 190–191] یہ صاف اور صریح قرآنی نص ہے کہ جن لوگوں کا شرک یہاں بیان ہوا ہے، وہ حضرت آدم اور حضرت حواء نہیں بلکہ ان کی اولاد میں سے مشرکین ہیں۔ اسی تفسیر کو حسن بصری رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، اور یہی قول قرآن کے ظاہری سیاق کے زیادہ موافق ہے۔ واللہ اعلم۔ ‘‘ ختم شد

ششم: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جوانی ہی میں رشد و ہدایت عطا فرما دی تھی، چنانچہ انہوں نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ • إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ترجمہ: اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اپنی طرف سے بھلائی عطا کی تھی، اور ہم اس کے حال سے خوب واقف تھے • جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: یہ مجسمے کیا ہیں جن پر تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟  [الأنبیاء: 51-52]

جہاں تک سورج، چاند اور ستاروں کے بارے میں آپ علیہ السلام کی گفتگو کا تعلق ہے، تو اس کے متعلق دو احتمال ہیں:

  1. یہ گفتگو انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ کرتے ہوئے کی تھی ۔
  2. یا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب وہ ہجرت کر کے ’’حرّان‘‘چلے گئے تھے، جہاں لوگ ستاروں کی عبادت کرتے تھے۔

دونوں صورتوں میں مقصد یہ تھا کہ وہ ان لوگوں سے مناظرہ کرتے ہوئے ان کی باطل عبادت کا رد کریں اور اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کو ثابت کریں۔

چنانچہ فوراً انہوں نے اعلان کیا: فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ • إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: پھر جب ابراہیم نے سورج کو نکلتا ہوا دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا: اے میری قوم! میں ان سب سے بری ہوں جنہیں تم شریک بناتے ہو • میں نے اپنا رخ اس کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ایک اللہ کی طرف، یکسو ہو کر، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ [الأنعام: 78-79] چنانچہ یہ کلمات کسی ایسے شخص کے نہیں ہو سکتے جو خود کسی شک یا تردد میں ہو یا غور و فکر کر رہا ہو، بلکہ یہ الفاظ ایسے شخص کے ہیں جو یقین کے ساتھ اپنی قوم پر حجت قائم کر رہا ہو۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مناظرانہ طرزِ عمل پر یہ تبصرہ فرمایا: وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ترجمہ: اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے خلاف عطا کی، ہم جسے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں، بے شک آپ کا رب حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ [الأنعام: 83] چنانچہ  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اس مقام پر غور و فکر میں مبتلا نہ تھے، بلکہ مناظرہ کر رہے تھے۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کا تعلق ہے کہ جب انہوں نے ستارہ، سورج اور چاند کو دیکھا تو فرمایا: ’’یہ میرا رب ہے‘‘ تو بعض لوگوں نے کہا کہ انہوں نے یہ بات غار سے نکلتے ہی فوری طور پر دل سے یقین رکھتے ہوئے کہی تھی۔ حالانکہ یہ بات محض جھوٹا افسانہ اور من گھڑت خیال ہے۔ عقل اور فطرت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ کوئی انسان اتنی بڑی عمر کو پہنچ جائے کہ وہ گفتگو کر سکے اور پھر بھی یہ سمجھے کہ سورج یا ستارہ اس کا رب ہے، حالانکہ وہ پہلے کبھی سورج، چاند یا ستارے کو نہ دیکھ پایا ہو!

اللہ تعالیٰ نے اس باطل خیال کو اپنے سچے کلام کے ذریعے جھٹلا دیا، فرمایا: وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ ترجمہ: اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اپنی طرف سے بھلائی عطا کی تھی ، اور ہم اس کے حال سے خوب واقف تھے) [الأنبیاء: 51] لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی رشد عطا فرما دیا ہو، وہ اس درجہ کی نادانی کا مظاہرہ کرے کہ ستارے کو رب سمجھنے لگے!!

حق اور سچ بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات اپنی قوم کو ڈانٹنے اور انہیں شرک پر متنبہ کرنے کے لیے فرمائی تھی ، جیسے کہ انہوں نے بڑے بت کے بارے میں بھی اسی طرح کی بات کی تھی۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ ان کی قوم ’’صابی‘‘ تھی، جو کہ ستاروں کی عبادت کرتے تھے، اور ان تاروں کے نام و صورت پر بت بنا کر ان کی پرستش کرتے تھے۔ ان کے لیے مخصوص ایام اور تہوار بھی مناتے، ان کے لیے قربانیاں دیتے، ان کے نام پر نذریں مانی جاتی تھیں، اور ان کے بارے میں عقیدہ رکھتے کہ وہ نفع و نقصان دے سکتے ہیں، عقل و تدبیر رکھتے ہیں، اور ہر تارے کی محدود دائرے تک شریعت بھی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس خرافاتی عقیدے پر گرفت کی اور واضح فرمایا کہ ان سب کا الٰہ ہونا باطل ہے۔۔۔ لہذا ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ -نعوذ باللہ-خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کے ساتھ شرک کریں۔۔۔ ہمارے اس موقف کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مقام پر بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس گفتگو پر ملامت نہیں فرمائی، بلکہ فرمایا: وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ترجمہ: اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے خلاف عطا کی۔[الأنعام: 83] ‘‘ ختم شد
ماخوذ از: ابن حزم، الفصل في الملل والأهواء والنحل: (4/17)

اسی طرح امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’درست بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس موقع پر اپنی قوم سے مناظرہ کر رہے تھے، اور ان پر یہ واضح فرما رہے تھے کہ وہ جس چیز کی عبادت کرتے ہیں، یعنی اجرامِ فلکیہ اور بت، یہ سب باطل ہیں۔ چنانچہ انہوں نے پہلے مقام پر اپنے والد کے ساتھ بحث میں ان کی زمینی بتوں کی عبادت کی تردید فرمائی، جو دراصل فرشتوں کی شکلوں پر بنائے گئے تھے، ان کا ماننا تھا کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔ قوم ابراہیم کے لوگ اپنے آپ کو اللہ تعالی کی عبادت کے لائق نہیں سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو بد تر سمجھتے ہوئے فرشتوں کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالی کے رزق اور نصرت سمیت دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے سفارش کریں گے۔  تو اس مقام پر ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اجرامِ فلکیہ کی عبادت  سے روکا اور ان کی گمراہی واضح کی۔ یہ سات متحرک سیارے تھے: چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مشتری، اور زحل۔ ان میں سب سے زیادہ چمک دار اور روشن سورج تھا، پھر چاند، پھر زہرہ۔

چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زہرہ کی نفی کی کہ وہ رب نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ ایک مقررہ راستے پر چلنے والا مجبور سیارہ ہے، جو نہ دائیں جاتا ہے نہ بائیں، نہ ہی اپنی مرضی سے کوئی تصرف کر سکتا ہے، بلکہ وہ ایک مخلوق ہے جسے اللہ نے روشن بنایا ہے اور اس میں عظیم حکمتیں رکھی ہیں۔ یہ مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غائب ہو جاتا ہے، پھر اگلی رات دوبارہ اسی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ اور ایسا تابع فرمان سیارہ معبود ہونے کے لائق نہیں ہو سکتا۔

پھر آپ علیہ السلام چاند کی طرف منتقل ہوئے اور اس کے بارے میں بھی وہی باتیں بیان فرمائیں جو زہرہ کے بارے میں فرمائیں تھیں۔

پھر سورج کی طرف آئے اور اسی طرح اس کی الوہیت کی بھی نفی کی۔

جب ان تینوں بڑے اور روشن اجرام فلکیہ کی الوہیت باطل قرار دے دی گئی حالانکہ دیکھنے والوں کی نظریں سب سے پہلے انہی پر پڑتی تھیں، اور دلائل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو گئی، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان فرمایا: يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ ترجمہ: ’’اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بری ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔‘‘ یعنی میں ان کی عبادت اور ان سے تعلق رکھنے سے بری ہوں، اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ معبود ہیں، تو مجھ پر ان کے ذریعے حملہ کرو اور پھر مجھے کوئی مہلت نہ دو! اور فرمایا: إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: ’’میں نے تو اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، خالص اسی کی طرف جھکتے ہوئے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ یعنی میں صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا، تشکیل دیا، مسخر کیا، اور ان کا نظام قائم رکھا۔ وہی ہر چیز کا خالق، مالک، رب، اور معبود ہے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر،  (3/292)

علامہ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ابراہیم علیہ السلام کا کہنا کہ : هَذَا رَبِّي (یہ میرا رب ہے) کے بارے میں تینوں مواقع پر یہ احتمال موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے واقعی ایسا گمان کیا ہو، جیسا کہ ابن عباس وغیرہ سے منقول ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی ربوبیت کے منکر تھے لہذا ان کا یہ کہنا اپنی قوم کے باطل عقیدے کی تردید کے لیے بطور مناظرہ تھا، یا یہ کہ انہوں نے استفہام انکاری  کے ذریعے بات کی اور ہمزہ استفہامیہ کو حذف کر دیا گیا ہو۔

تو قرآنِ کریم نے پہلے احتمال (کہ انہوں نے دل سے ایسا گمان کیا) کو رد کر دیا ہے، اور دوسرے احتمال (کہ وہ مناظرانہ انداز میں یہ بات کہہ رہے تھے) کی تصدیق کی ہے۔

پہلے احتمال کی تردید یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں فرمایا: وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔  لہذا یہ اس بات کی قطعی نفی ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی وقت شرک میں مبتلا ہوئے ہوں۔

اور اس بات کی تائید کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت پر یقین رکھتے تھے اور مناظرہ کرتے ہوئے یہ باتیں کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا ... الخ۔ میں مختلف جملوں کو حرف ’’ فا‘‘ کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور یہ: وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی دکھائی تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔ [الأنعام: 75] کے بعد ہے،  یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے وہ سب کچھ یقین کی حالت میں  اپنی قوم سے مناظرہ کرتے ہوئے کہا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ﴾ ترجمہ: اور اس سے اس کی قوم نے بحث کی۔

اور:وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ  ترجمہ: اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے خلاف عطا کی۔ [الأنعام: 83]۔ واللہ اعلم ‘‘ ختم شد

ماخوذ از: أضواء البيان (2/236-237)

خاتمہ:

مزید فائدے کے لیے سوال نمبر: (42216) کا مطالعہ کریں۔

محترم سائل کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ حتمی حکم بیان کرنے میں جلد بازی اور بے احتیاطی سے گریز کریں، نیز ان معاملات میں رائے زنی سے باز رہیں جن کے سمجھنے اور تحقیق کرنے کی وہ صلاحیت نہیں رکھتے، چہ جائیکہ کسی معاملے میں اپنی رائے کو قطعی سمجھ کر اس پر اصرار کریں، یا اپنے موقف کے مخالف اہلِ علم و دیانت کی تنقیص کریں۔ بہتر یہ ہے کہ بے فائدہ امور میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی توجہ ان کاموں پر مرکوز رکھیں جو اسے اپنے رب کے قریب کریں، اس کے ایمان، فہم اور عملِ صالح میں اضافہ کا باعث بنیں۔

واللہ اعلم۔

رسولوں پرایمان
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔