اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اگر کسی کے وکیل نے زکوٰۃ کی رقم سے غذائی اشیاء تقسیم کیں، تو کیا یہ کافی ہو گا یا زکوٰۃ دوبارہ دینی پڑے گی؟

16-07-2025

سوال 233471

میں رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتا ہوں۔ سن 1436ھ میں میں نے اپنی زکوٰۃ یمن کے شہر تعز کے دیہات میں بھیجی۔ لیکن میرے وکیل نے وہ رقم بنیادی غذائی اشیاء، جیسے آٹا وغیرہ، خریدنے میں استعمال کی اور مستحق خواتین میں تقسیم کر دی، نیز بعض افراد کو نقدی بھی دی۔ تو کیا مجھے اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنی ہو گی، یا یہ تقسیم کافی شمار ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

زکوٰۃ مال (نقدی) کی اصل یہ ہے کہ اسے نقد ہی ادا کیا جائے۔
کھانے پینے کی اشیاء یا دیگر اجناس کی صورت میں اس کی ادائیگی جائز نہیں، الا یہ کہ اجناس کی صورت میں ادائیگی میں کوئی غالب شرعی مصلحت پائی جائے۔
ہم نے اس مسئلے کی وضاحت سوال نمبر (138684) میں بیان کی ہے۔

اس بنا پر:
اگر درج ذیل میں سے کوئی صورت موجود ہو تو زکوٰۃ کا اجناس کی شکل میں دینا جائز اور صحیح ہو گا مثلاً :

ایسی صورتوں میں وکیل کا غذائی اشیاء کی صورت میں زکوٰۃ دینا صحیح اور جائز شمار ہو گا۔

لیکن بہتر یہی تھا کہ وکیل موکل کی صریح اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف نہ کرتا۔

اور اگر مذکورہ کوئی غالب مصلحت موجود نہ ہو اور وکیل نے اپنی رائے سے، بغیر موکل کی اجازت کے، زکوٰۃ اجناس کی صورت میں ادا کی ہو تو:
موکل پر لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ دوبارہ نقدی کی صورت میں ادا کرے، کیونکہ پہلی ادائیگی شرعی اصول کے مطابق نہیں ہوئی۔

اور ایسی حالت میں وکیل نے غلطی کی ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ ادا کردہ مال کی تلافی کرے اور اسے موکل کو واپس کرے؛ کیونکہ اس نے مالک کی اجازت کے بغیر مال میں ایسا تصرف کیا جو اسے جائز نہ تھا۔

جیسا کہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’وکیل کو اپنے موکل کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، چاہے وہ اجازت زبانی ہو یا عرفاً ہو؛ کیونکہ وکیل کا سارا عمل اجازت پر مبنی ہوتا ہے، لہٰذا وہ صرف اسی دائرے میں تصرف کر سکتا ہے جس کی اجازت اسے حاصل ہو۔‘‘

المغنی: ( 5/95)

واللہ اعلم

زکاۃ ولایت اور نمائندگی
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔